EN हिंदी
جب سے تمہاری آنکھیں عالم کو بھائیاں ہیں | شیح شیری
jab se tumhaari aankhen aalam ko bhaiyan hain

غزل

جب سے تمہاری آنکھیں عالم کو بھائیاں ہیں

شیخ ظہور الدین حاتم

;

جب سے تمہاری آنکھیں عالم کو بھائیاں ہیں
تب سے جہاں میں تم نے دھومیں مچائیاں ہیں

جور و جفا و محنت مہر و وفا و الفت
تم کیوں بڑھائیاں ہیں اور کیوں گھٹائیاں ہیں

مل مل کے روٹھ جانا اور روٹھ روٹھ ملنا
یہ کیا خرابیاں ہیں کیا جگ ہنسائیاں ہیں

ٹک ٹک سرک سرک کر آ بیٹھنا بغل میں
کیا اچپلائیاں ہیں اور کیا ڈھٹائیاں ہیں

زلفوں کا بل بناتے آنکھیں چرا کے چلنا
کیا کم نگاہیاں ہیں کیا کج ادائیاں ہیں

آئینہ روبرو رکھ اور اپنی سج بنانا
کیا خود پسندیاں ہیں کیا خود نمائیاں ہیں

آنچل اٹھا کے تم نے جو ڈھانک لیں یہ چھتیاں
کس کو دکھائیاں ہیں کس سے چھپائیاں ہیں

تم میں جو شوخیاں ہیں اور چنچلائیاں ہیں
کن نے سکھائیاں ہیں کن نے بتائیاں ہیں

حاتمؔ کے بن اشارہ سچ کہہ یہ چشم و ابرو
کس سے لڑائیاں ہیں کس پر چڑھائیاں ہیں