ہوا بھی عشق کی لگنے نہ دیتا میں اسے ہرگز
اگر اس دل پہ ہوتا ہائے کچھ بھی اختیار اپنا
تاباں عبد الحی
ہجر میں اس بت کافر کے تڑپتے ہیں پڑے
اہل زنار کہیں صاحب اسلام کہیں
تاباں عبد الحی
ہو روح کے تئیں جسم سے کس طرح محبت
طائر کو قفس سے بھی کہیں ہو ہے محبت
تاباں عبد الحی
ایمان و دیں سے تاباںؔ کچھ کام نہیں ہے ہم کو
ساقی ہو اور مے ہو دنیا ہو اور ہم ہوں
تاباں عبد الحی
ان بتوں کو تو مرے ساتھ محبت ہوتی
کاش بنتا میں برہمن ہی مسلماں کے عوض
تاباں عبد الحی
جب تلک رہے جیتا چاہئے ہنسے بولے
آدمی کو چپ رہنا موت کی نشانی ہے
تاباں عبد الحی
جس کا گورا رنگ ہو وہ رات کو کھلتا ہے خوب
روشنائی شمع کی پھیکی نظر آتی ہے صبح
تاباں عبد الحی
کئی باری بنا ہو جس کی پھر کہتے ہیں ٹوٹے گا
یہ حرمت جس کی ہو اے شیخ کیا تیرا وہ مکا ہے
تاباں عبد الحی
کئی فاقوں میں عید آئی ہے
آج تو ہو تو جان ہم آغوش
تاباں عبد الحی