کسی کا کام دل اس چرخ سے ہوا بھی ہے
کوئی زمانہ میں آرام سے رہا بھی ہے
کسی میں مہر و محبت کہیں وفا بھی ہے
کوئی کسی کا زمانہ میں آشنا بھی ہے
کوئی فلک کا ستم مجھ سے بچ رہا بھی ہے
جنا نصیب کوئی مجھ سا دوسرا بھی ہے
برا نہ مانیو میں پوچھتا ہوں اے ظالم
کہ بے کسوں کے ستائے سے کچھ بھلا بھی ہے
جو پختہ مغز ہیں وے سوز دل نہیں کہتے
کسی نے شمع سے جلنے میں کچھ سنا بھی ہے
تم اس قدر جو نڈر ہو کے ظلم کرتے ہو
بتاں ہمارا تمہارا کوئی خدا بھی ہے
تو قاتلوں سے لگاتا ہے دل کو کیوں تاباںؔ
کہ ان کے ہاتھ سے جیتا کوئی بچا بھی ہے
غزل
کسی کا کام دل اس چرخ سے ہوا بھی ہے
تاباں عبد الحی