یار سے اب کے گر ملوں تاباںؔ
تو پھر اس سے جدا نہ ہوں تاباںؔ
یا بھرے اب کے اس سے دل میرا
عشق کا نام پھر نہ لوں تاباںؔ
مجھ سے بیمار ہے مرا ظالم
یہ ستم کس طرح سہوں تاباںؔ
آج آیا ہے یار گھر میرے
یہ خوشی کس سے میں کہوں تاباںؔ
میں تو بیزار اس سے ہوں لیکن
دل کے ہاتھوں سے کیا کروں تاباںؔ
وہ تو سنتا نہیں کسی کی بات
اس سے میں حال کیا کہوں تاباںؔ
بعد مدت کے ماہرو آیا
کیوں نہ اس کے گلے لگوں تاباںؔ
غزل
یار سے اب کے گر ملوں تاباںؔ
تاباں عبد الحی