مجھے آتا ہے رونا ایسی تنہائی پہ اے تاباںؔ
نہ یار اپنا نہ دل اپنا نہ تن اپنا نہ جاں اپنا
تاباں عبد الحی
مجھ سے بیمار ہے مرا ظالم
یہ ستم کس طرح سہوں تاباںؔ
تاباں عبد الحی
محبت تو مت کر دل اس بے وفا سے
دل اس بے وفا سے محبت تو مت کر
تاباں عبد الحی
ملوں ہوں خاک جوں آئینہ منہ پر
تری صورت مجھے آتی ہے جب یاد
تاباں عبد الحی
میں تو طالب دل سے ہوں گا دین کا
دولت دنیا مجھے مطلوب نہیں
تاباں عبد الحی
میں ہو کے ترے غم سے ناشاد بہت رویا
راتوں کے تئیں کر کے فریاد بہت رویا
تاباں عبد الحی
محفل کے بیچ سن کے مرے سوز دل کا حال
بے اختیار شمع کے آنسو ڈھلک پڑے
تاباں عبد الحی
لے میری خبر چشم مرے یار کی کیوں کر
بیمار عیادت کرے بیمار کی کیوں کر
تاباں عبد الحی
کس کس طرح کی دل میں گزرتی ہیں حسرتیں
ہے وصل سے زیادہ مزا انتظار کا
تاباں عبد الحی