ہے جنبش مژگاں میں تری تیر کی آواز
اس تیر میں ہے صید کی تکبیر کی آواز
مشتاق ہوں تجھ لب کی فصاحت کا ولیکن
'رانجھا' کے نصیبوں میں کہاں ہیر کی آواز
تو خسرو خوباں ہے کہ لے ہند سیں تا روم
پہنچی ہے ترے حسن جہانگیر کی آواز
حیرت کے مقامات میں قانون نوا نہیں
ہے ساز خموشی لب تصویر کی آواز
دیوانے کوں مت شور جنوں یاد دلاؤ
ہرگز نہ سناؤ اسے زنجیر کی آواز
پیتا ہوں جدائی میں تری گھونٹ لہو کی
سن غنچہ دہن عاشق دلگیر کی آواز
اے جان سراجؔ آ کے پتنگوں کی خبر لیو
سن جاؤ مرے نالۂ شب گیر کی آواز
غزل
ہے جنبش مژگاں میں تری تیر کی آواز
سراج اورنگ آبادی