تم تو بیٹھے ہوئے پہ آفت ہو
اٹھ کھڑے ہو تو کیا قیامت ہو
شیخ ظہور الدین حاتم
تری نگہ سے گئے کھل کواڑ چھاتی کے
حصار قلب کی گویا تھی فتح تیرے نام
شیخ ظہور الدین حاتم
تری محراب میں ابرو کی یہ خال
کدھر سے آ گیا مسجد میں ہندو
شیخ ظہور الدین حاتم
تری جو زلف کا آیا خیال آنکھوں میں
وہیں کھٹکنے لگا بال بال آنکھوں میں
شیخ ظہور الدین حاتم
تیرے آگے لے چکا خسرو لب شیریں سے کام
تو عبث سر پھوڑتا ہے کوہ کن پتھر سے آج
شیخ ظہور الدین حاتم
طبع تیری عجب تماشا ہے
گاہ تولا ہے گاہ ماشہ ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
طبیبوں کی توجہ سے مرض ہونے لگا دونا
دوا اس درد کی بتلا دل آگاہ کیا کیجے
شیخ ظہور الدین حاتم
تنہائی سے آتی نہیں دن رات مجھے نیند
یارب مرا ہم خواب و ہم آغوش کہاں ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
تو اپنے من کا منکا پھیر زاہد ورنہ کیا حاصل
تجھے اس مکر کی تسبیح سے زنار بہتر تھا
شیخ ظہور الدین حاتم