میں جتنا ڈھونڈھتا ہوں اس کو اتنا ہی نہیں پاتا
کدھر ہے کس طرف ہے اور کہاں ہے دل خدا جانے
شیخ ظہور الدین حاتم
مسجد میں سر پٹکتا ہے تو جس کے واسطے
سو تو یہاں ہے دیکھ ادھر آ خدا شناس
شیخ ظہور الدین حاتم
مشرب میں تو درست خراباتیوں کے ہے
مذہب میں زاہدوں کے نہیں گر روا شراب
شیخ ظہور الدین حاتم
مجلس میں رات گریۂ مستاں تھا تجھ بغیر
ساغر بھرا شراب کا چشم پر آب تھا
شیخ ظہور الدین حاتم
میں اس کی چشم سے ایسا گرا ہوں
مرے رونے پہ ہنستا ہے مرا دل
شیخ ظہور الدین حاتم
میں پیر ہو گیا ہوں اور اب تک جواں ہے درد
میرے مرید ہو جو تمہیں دوستاں ہے درد
شیخ ظہور الدین حاتم
میں کفر و دیں سے گزر کر ہوا ہوں لا مذہب
خدا پرست سے مطلب نہ بت پرست سے کام
شیخ ظہور الدین حاتم
کیا مدرسے میں دہر کے الٹی ہوا بہی
واعظ نہی کو امر کہے امر کو نہی
شیخ ظہور الدین حاتم
کیوں مزاحم ہے میرے آنے سے
کوئی ترا گھر نہیں یہ رستا ہے
شیخ ظہور الدین حاتم