تری جو زلف کا آیا خیال آنکھوں میں
وہیں کھٹکنے لگا بال بال آنکھوں میں
شیخ ظہور الدین حاتم
ترے رخسار سے بے طرح لپٹی جائے ہے ظالم
جو کچھ کہیے تو بل کھا الجھتی ہے زلف بے ڈھنگی
شیخ ظہور الدین حاتم
تیر نگہ لگا کے تم کہتے ہو پھر لگا نہ خوب
میرا تو کام ہو گیا سینہ کے پار ہو نہ ہو
شیخ ظہور الدین حاتم
تیرے آنے سے یو خوشی ہے دل
جوں کہ بلبل بہار کی خاطر
شیخ ظہور الدین حاتم
تیرے آگے لے چکا خسرو لب شیریں سے کام
تو عبث سر پھوڑتا ہے کوہ کن پتھر سے آج
شیخ ظہور الدین حاتم
تنہائی سے آتی نہیں دن رات مجھے نیند
یارب مرا ہم خواب و ہم آغوش کہاں ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
طبیبوں کی توجہ سے مرض ہونے لگا دونا
دوا اس درد کی بتلا دل آگاہ کیا کیجے
شیخ ظہور الدین حاتم
طبع تیری عجب تماشا ہے
گاہ تولا ہے گاہ ماشہ ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
رات دن یار بغل میں ہو تو گھر بہتر ہے
ورنہ اس گھر کے تو رہنے سے سفر بہتر ہے
شیخ ظہور الدین حاتم