رکھتا ہے عبادت کے لیے حسرت جنت
زاہد کی خدا ساتھ محبت سببی ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
رکھے ہے شیشہ مرا سنگ ساتھ ربط قدیم
کہ آٹھ پہر مرے دل کو ہے شکست سے کام
شیخ ظہور الدین حاتم
رہن شراب خانہ کیا شیخ حیف ہے
جو پیرہن بنایا تھا احرام کے لیے
شیخ ظہور الدین حاتم
رات اس کی محفل میں سر سے جل کے پاؤں تک
شمع کی پگھل چربی استخواں نکل آئی
شیخ ظہور الدین حاتم
رات میرے فغاں و نالے سے
ساری بستی نہ نیند بھر سوئی
شیخ ظہور الدین حاتم
رات دن یار بغل میں ہو تو گھر بہتر ہے
ورنہ اس گھر کے تو رہنے سے سفر بہتر ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
رات دن جاری ہیں کچھ پیدا نہیں ان کا کنار
میرے چشموں کا دو آبا مجمع البحرین ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
پہن کر جامہ بسنتی جو وہ نکلا گھر سوں
دیکھ آنکھوں میں مری پھول گئی ہے سرسوں
شیخ ظہور الدین حاتم
پھڑکوں تو سر پھٹے ہے نہ پھڑکوں تو جی گھٹے
تنگ اس قدر دیا مجھے صیاد نے قفس
شیخ ظہور الدین حاتم