اے دل نہ کر تو فکر پڑے گا بلا کے ہاتھ
آئینہ ہو کے جا کے لگ اب دل ربا کے ہاتھ
پیغام درد دل کا مرے غنچہ لب ستی
پہنچا سکے گا کون مگر دوں صبا کے ہاتھ
میں اب گلہ جہاں میں بیگانوں سیں کیا کروں
جینا ہوا محال مجھے آشنا کے ہاتھ
دینا نہیں ہے شیشۂ دل سنگ دل کے تئیں
دیجے اگر یہ دل تو کسو میرزا کے ہاتھ
آزاد ہو رہا ہوں دو عالم کے قید سوں
میتا لگا ہے جب ستیں مج بے نوا کے ہاتھ
تابع رضا کا اوس کی ازل سیں کیا مجھے
چلتا نہیں ہے زور کسوں کا قضا کے ہاتھ
حاتمؔ امید حق پہ نہ راکھے تو کیا کرے
موقوف ہے ملاپ سجن کا خدا کے ہاتھ
غزل
اے دل نہ کر تو فکر پڑے گا بلا کے ہاتھ
شیخ ظہور الدین حاتم