کیا ہوا گر شیخ یارو حاجی الحرمین ہے
طوف دل کا حق میں اس کے دین فرض عین ہے
رات دن جاری ہیں کچھ پیدا نہیں ان کا کنار
میرے چشموں کا دو آبا مجمع البحرین ہے
غیر جاوے اس کے گھر اور وہ نہ آوے گھر مرے
دونوں باتیں دوستاں حق میں مرے خبرین ہے
وقت فرصت دے تو مل بیٹھیں کہیں باہم دو دم
ایک مدت سے دلوں میں حسرت طرفین ہے
آؤ اے ساقی شتابی آ کے شمع بزم ہو
ساری مجلس انتظاری میں تری بے چین ہے
دو قرن گزرے اسی فکر سخن میں روز و شب
ریختے کے فن میں حاتمؔ آج ذوالقرنین ہے
غزل
کیا ہوا گر شیخ یارو حاجی الحرمین ہے
شیخ ظہور الدین حاتم