EN हिंदी
شہزاد احمد شیاری | شیح شیری

شہزاد احمد شیر

192 شیر

کھلے اسرار اس پر جسم کے آہستہ آہستہ
بہت دن میں اسے باتیں نہ کرنے کا ہنر آیا

شہزاد احمد




کھلی فضا میں اگر لڑکھڑا کے چل نہ سکیں
تو زہر پینا ہے بہتر شراب پینے سے

شہزاد احمد




خوشا وہ درد کے لمحے کہ تیرے جانے پر
ہماری انجمن غم میں لوٹ آئے ہیں

شہزاد احمد




خواہشوں کی دھول سے چہرے ابھرتے ہی نہیں
ہم نے کر کے دیکھ لیں خوابوں کی تعبیریں بہت

شہزاد احمد




کس لیے وہ شہر کی دیوار سے سر پھوڑتا
قیس دیوانہ سہی اتنا بھی دیوانہ نہ تھا

شہزاد احمد




کوئی بتاؤ کہ کس کے لیے تلاش کریں
جہاں چھپی ہیں بہاریں ہمیں خبر ہی سہی

شہزاد احمد




کوئی تو رات کو دیکھے گا جواں ہوتے ہوئے
اس بھرے شہر میں بے دار کوئی تو ہوگا

شہزاد احمد




کچھ دیکھنے کی دل میں تمنا نہیں باقی
کیا اپنی بھی طاقت سے سوا دیکھ لیا ہے

شہزاد احمد




کچھ تذکرۂ حسن سے روشن تھے در و بام
کچھ شمع نے بھی بزم کو چمکایا ہوا تھا

شہزاد احمد