کھلے اسرار اس پر جسم کے آہستہ آہستہ
بہت دن میں اسے باتیں نہ کرنے کا ہنر آیا
شہزاد احمد
کھلی فضا میں اگر لڑکھڑا کے چل نہ سکیں
تو زہر پینا ہے بہتر شراب پینے سے
شہزاد احمد
خوشا وہ درد کے لمحے کہ تیرے جانے پر
ہماری انجمن غم میں لوٹ آئے ہیں
شہزاد احمد
خواہشوں کی دھول سے چہرے ابھرتے ہی نہیں
ہم نے کر کے دیکھ لیں خوابوں کی تعبیریں بہت
شہزاد احمد
کس لیے وہ شہر کی دیوار سے سر پھوڑتا
قیس دیوانہ سہی اتنا بھی دیوانہ نہ تھا
شہزاد احمد
کوئی بتاؤ کہ کس کے لیے تلاش کریں
جہاں چھپی ہیں بہاریں ہمیں خبر ہی سہی
شہزاد احمد
کوئی تو رات کو دیکھے گا جواں ہوتے ہوئے
اس بھرے شہر میں بے دار کوئی تو ہوگا
شہزاد احمد
کچھ دیکھنے کی دل میں تمنا نہیں باقی
کیا اپنی بھی طاقت سے سوا دیکھ لیا ہے
شہزاد احمد
کچھ تذکرۂ حسن سے روشن تھے در و بام
کچھ شمع نے بھی بزم کو چمکایا ہوا تھا
شہزاد احمد