کچھ تیرے سبب تھی مرے پہلو میں حرارت
کچھ دل نے بھی اس آگ کو بھڑکایا ہوا تھا
شہزاد احمد
کیوں بلاتی ہے مجھے دنیا اسی کے نام سے
کیا مرے چہرے پہ اس کا نام ہے لکھا ہوا
شہزاد احمد
لیتے ہیں لوگ سانس بھی اب احتیاط سے
چھوٹا سا ہی سہی کوئی فتنہ اٹھائیے
شہزاد احمد
لوگ زندہ نظر آتے تھے مگر تھے مقتول
دست قاتل میں بظاہر کوئی شمشیر نہ تھی
شہزاد احمد
میں اپنی جاں میں اسے جذب کس طرح کرتا
اسے گلے سے لگایا لگا کے چھوڑ دیا
شہزاد احمد
میں چاہتا ہوں حقیقت پسند ہو جاؤں
مگر ہے اس میں یہ مشکل حقیقتیں ہیں بہت
شہزاد احمد
میں گل خشک ہوں لمحے میں بکھر سکتا ہوں
یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ دیر ہوا رہنے دے
شہزاد احمد
میں سن رہا ہوں مگر دوسروں کو کیسے سناؤں
جو گیت گونجتا رہتا ہے میرے کانوں میں
شہزاد احمد
میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو ترے ذہن میں آتا کیا ہے
شہزاد احمد