EN हिंदी
جان مقدر میں تھی جان سے پیارا نہ تھا | شیح شیری
jaan muqaddar mein thi jaan se pyara na tha

غزل

جان مقدر میں تھی جان سے پیارا نہ تھا

شہزاد احمد

;

جان مقدر میں تھی جان سے پیارا نہ تھا
میرے لیے صبح تھی صبح کا تارا نہ تھا

بحر شب و روز میں بہہ گئے تنکے سے ہم
موج بلا خیز تھی اور کنارا نہ تھا

جان کے دشمن تھے سب لوگ ترے شہر کے
عمر کٹی جس جگہ پل بھی گزارا نہ تھا

سرد رہی عمر بھر انجمن آرزو
خار و خس شوق میں کوئی شرارہ نہ تھا

کس کے لیے جاگتے کس کی طرف بھاگتے
اتنے بڑے شہر میں کوئی ہمارا نہ تھا

شوق سفر بے سبب اور سفر بے طلب
اس کی طرف چل دیے جس نے پکارا نہ تھا

دور سہی منزلیں اب نہ رہیں ہمتیں
ٹوٹ گئے پائے شوق دل ابھی ہارا نہ تھا