EN हिंदी
جس نے تری آنکھوں میں شرارت نہیں دیکھی | شیح شیری
jis ne teri aankhon mein shararat nahin dekhi

غزل

جس نے تری آنکھوں میں شرارت نہیں دیکھی

شہزاد احمد

;

جس نے تری آنکھوں میں شرارت نہیں دیکھی
وہ لاکھ کہے اس نے محبت نہیں دیکھی

اک روپ مرے خواب میں لہرا سا گیا تھا
پھر دل میں کوئی چیز سلامت نہیں دیکھی

آئینہ تجھے دیکھ کے گل نار ہوا تھا
شاید تری آنکھوں نے وہ رنگت نہیں دیکھی

یوں نقش ہوا آنکھ کی پتلی پہ وہ چہرہ
پھر ہم نے کسی اور کی صورت نہیں دیکھی

خیرات کیا وہ بھی جو موجود نہیں تھا
تو نے تہی دستوں کی سخاوت نہیں دیکھی

صد شکر گزاری ہے قیامت تن تنہا
اس رات کسی نے مری حالت نہیں دیکھی

کیا تجھ سے کہیں کیسے کٹی کیسے کٹے گی
اچھا ہے کہ تو نے یہ مصیبت نہیں دیکھی

شاید اسی باعث وہ فروزاں ہے ابھی تک
سورج نے کبھی رات کی ظلمت نہیں دیکھی

سب کی طرح تو نے بھی مرے عیب نکالے
تو نے بھی خدایا مری نیت نہیں دیکھی

تنکا ہوں مگر سیل کے رستے میں کھڑا ہوں
اے بھاگنے والو مری ہمت نہیں دیکھی

جو ٹھان لیا دل میں وہ کر گزرا ہوں شہزادؔ
آئی ہوئی سر پر کوئی آفت نہیں دیکھی