حد بندئ خزاں سے حصار بہار تک
جاں رقص کر سکے تو کوئی فاصلہ نہیں
ساقی فاروقی
آگ ہو دل میں تو آنکھوں میں دھنک پیدا ہو
روح میں روشنی لہجے میں چمک پیدا ہو
ساقی فاروقی
ایک ایک کر کے لوگ بچھڑتے چلے گئے
یہ کیا ہوا کہ وقفۂ ماتم نہیں ملا
ساقی فاروقی
ڈوب جانے کا سلیقہ نہیں آیا ورنہ
دل میں گرداب تھے لہروں کی نظر میں ہم تھے
ساقی فاروقی
دنیا پہ اپنے علم کی پرچھائیاں نہ ڈال
اے روشنی فروش اندھیرا نہ کر ابھی
ساقی فاروقی
دل ہی عیار ہے بے وجہ دھڑک اٹھتا ہے
ورنہ افسردہ ہواؤں میں بلاوا کیسا
ساقی فاروقی
بجھے لبوں پہ ہے بوسوں کی راکھ بکھری ہوئی
میں اس بہار میں یہ راکھ بھی اڑا دوں گا
ساقی فاروقی
عجب کہ صبر کی میعاد بڑھتی جاتی ہے
یہ کون لوگ ہیں فریاد کیوں نہیں کرتے
ساقی فاروقی
ابھی نظر میں ٹھہر دھیان سے اتر کے نہ جا
اس ایک آن میں سب کچھ تباہ کر کے نہ جا
ساقی فاروقی