EN हिंदी
شہر کا شہر ہوا جان کا پیاسا کیسا | شیح شیری
shahr ka shahr hua jaan ka pyasa kaisa

غزل

شہر کا شہر ہوا جان کا پیاسا کیسا

ساقی فاروقی

;

شہر کا شہر ہوا جان کا پیاسا کیسا
سانس لیتا ہے مرے سامنے صحرا کیسا

مرے احساس میں یہ آگ بھری ہے کس نے
رقص کرتا ہے مری روح میں شعلہ کیسا

تیری پرچھائیں ہوں نادان جدائی کیسی
میری آنکھوں میں پھرا خوف کا سایہ کیسا

اپنی آنکھوں پہ تجھے اتنا بھروسا کیوں ہے
تیرے بیمار چلے تو ہے مسیحا کیسا

یہ نہیں یاد کہ پہچان ہماری کیا ہے
اک تماشے کے لیے سوانگ رچایا کیسا

مت پھری تھی کہ حریفانہ چلے دنیا سے
سوچتے خاک کہ مواج ہے دریا کیسا

صبح تک رات کی زنجیر پگھل جائے گی
لوگ پاگل ہیں ستاروں سے الجھنا کیسا

دل ہی عیار ہے بے وجہ دھڑک اٹھتا ہے
ورنہ افسردہ ہواؤں میں بلاوا کیسا

آج خاموش ہیں ہنگامہ اٹھانے والے
ہم نہیں ہیں تو کراچی ہوا تنہا کیسا