ایک ایک کر کے لوگ بچھڑتے چلے گئے
یہ کیا ہوا کہ وقفۂ ماتم نہیں ملا
ساقی فاروقی
حادثہ یہ ہے کہ ہم جاں نہ معطر کر پائے
وہ تو خوش بو تھا اسے یوں بھی بکھر جانا تھا
ساقی فاروقی
حد بندئ خزاں سے حصار بہار تک
جاں رقص کر سکے تو کوئی فاصلہ نہیں
ساقی فاروقی
حیرانی میں ہوں آخر کس کی پرچھائیں ہوں
وہ بھی دھیان میں آیا جس کا سایہ کوئی نہ تھا
ساقی فاروقی
ہم تنگنائے ہجر سے باہر نہیں گئے
تجھ سے بچھڑ کے زندہ رہے مر نہیں گئے
ساقی فاروقی
اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے
یہ بات کسی اور سے کہہ بھی نہیں سکتے
ساقی فاروقی
آگ ہو دل میں تو آنکھوں میں دھنک پیدا ہو
روح میں روشنی لہجے میں چمک پیدا ہو
ساقی فاروقی
خاک میں اس کی جدائی میں پریشان پھروں
جب کہ یہ ملنا بچھڑنا مری مرضی نکلا
ساقی فاروقی
خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا
ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا
ساقی فاروقی