وہ دکھ جو سوئے ہوئے ہیں انہیں جگا دوں گا
میں آنسوؤں سے ہمیشہ ترا پتا دوں گا
بجھے لبوں پہ ہے بوسوں کی راکھ بکھری ہوئی
میں اس بہار میں یہ راکھ بھی اڑا دوں گا
ہوا ہے تیز مگر اپنا دل نہ میلا کر
میں اس ہوا میں تجھے دور تک صدا دوں گا
مری صدا پہ نہ برسیں اگر تری آنکھیں
تو حرف و صوت کے سارے دیے بجھا دوں گا
جو اہل ہجر میں ہوتی ہے ایک دید کی رسم
تری تلاش میں وہ رسم بھی اٹھا دوں گا
غزل
وہ دکھ جو سوئے ہوئے ہیں انہیں جگا دوں گا
ساقی فاروقی