میں کھل نہیں سکا کہ مجھے نم نہیں ملا
ساقی مرے مزاج کا موسم نہیں ملا
مجھ میں بسی ہوئی تھی کسی اور کی مہک
دل بجھ گیا کہ رات وہ برہم نہیں ملا
بس اپنے سامنے ذرا آنکھیں جھکی رہیں
ورنہ مری انا میں کہیں خم نہیں ملا
اس سے طرح طرح کی شکایت رہی مگر
میری طرف سے رنج اسے کم نہیں ملا
ایک ایک کر کے لوگ بچھڑتے چلے گئے
یہ کیا ہوا کہ وقفۂ ماتم نہیں ملا
غزل
میں کھل نہیں سکا کہ مجھے نم نہیں ملا
ساقی فاروقی