تجھے خبر ہے تجھے یاد کیوں نہیں کرتے
خدا پہ ناز خدا زاد کیوں نہیں کرتے
عجب کہ صبر کی میعاد بڑھتی جاتی ہے
یہ کون لوگ ہیں فریاد کیوں نہیں کرتے
رگوں میں خون کے مانند ہے سکوت کا زہر
کوئی مکالمہ ایجاد کیوں نہیں کرتے
مرے سخن سے خفا ہیں تو ایک روز مجھے
کسی طلسم سے برباد کیوں نہیں کرتے
یہ حادثہ ہے کہ شعلے میں جان ہے میری
مجھے چراغ سے آزاد کیوں نہیں کرتے
غزل
تجھے خبر ہے تجھے یاد کیوں نہیں کرتے
ساقی فاروقی