آگ ہو دل میں تو آنکھوں میں دھنک پیدا ہو
روح میں روشنی لہجے میں چمک پیدا ہو
ایک شعلہ میری آواز میں لہراتا ہے
خون میں لہر خیالوں میں للک پیدا ہو
قتل کرنے کا ارادہ ہے مگر سوچتا ہوں
تو اگر آئے تو ہاتھوں میں جھجک پیدا ہو
اس طرح اپنی ہی سچائی پر اصرار نہ کر
یہ نہ ہو اور تری بات میں شک پیدا ہو
مجھ سے بہتے ہوئے آنسو نہیں لکھے جاتے
کاش اک دن میرے لفظوں میں لچک پیدا ہو
غزل
آگ ہو دل میں تو آنکھوں میں دھنک پیدا ہو
ساقی فاروقی