رات نادیدہ بلاؤں کے اثر میں ہم تھے
خوف سے سہمے ہوئے سوگ نگر میں ہم تھے
پاؤں سے لپٹی ہوئی چیزوں کی زنجیریں تھیں
اور مجرم کی طرح اپنے ہی گھر میں ہم تھے
وہ کسی رات ادھر سے بھی گزر جائے گا
خواب میں راہ گزر راہ گزر میں ہم تھے
ایک لمحے کے جزیرے میں قیام ایسا تھا
جیسے انجانے زمانوں کے سفر میں ہم تھے
ڈوب جانے کا سلیقہ نہیں آیا ورنہ
دل میں گرداب تھے لہروں کی نظر میں ہم تھے
غزل
رات نادیدہ بلاؤں کے اثر میں ہم تھے
ساقی فاروقی