شیخ جی کیونکہ معاصی سے بچیں ہم کہ گناہ
ارث ہے اپنی ہم آدم کے اگر پوتے ہیں
قائم چاندپوری
شیخ جی آیا نہ مسجد میں وہ کافر ورنہ ہم
پوچھتے تم سے کہ اب وہ پارسائی کیا ہوئی
قائم چاندپوری
شامت ہے کیا کہ شیخ سے کوئی ملے کہ واں
روزہ وبال جاں ہے سدا یا نماز ہے
قائم چاندپوری
سیر اس کوچہ کی کرتا ہوں کہ جبریل جہاں
جا کے بولا کہ بس اب آگے میں جل جاؤں گا
قائم چاندپوری
سنگ کو آب کریں پل میں ہماری باتیں
لیکن افسوس یہی ہے کہ کہاں سنتے ہو
قائم چاندپوری
رونق بادہ پرستی تھی ہمیں تک جب سے
ہم نے کی توبہ کہیں نام خرابات نہیں
قائم چاندپوری
رسم اس گھر کی نہیں داد کسو کی دے کوئی
شور و غوغا نہ کر اے مرغ گرفتار عبث
قائم چاندپوری
قصۂ برہنہ پائی کو مرے اے مجنوں
خار سے پوچھ کہ سب نوک زباں ہے اس کو
قائم چاندپوری
درد دل کچھ کہا نہیں جاتا
آہ چپ بھی رہا نہیں جاتا
قائم چاندپوری