EN हिंदी
قائم چاندپوری شیاری | شیح شیری

قائم چاندپوری شیر

88 شیر

ایراد کر نہ پڑھ کے مرا خط کہ یہ تمام
بے ربطیاں ہیں ثمرۂ ہنگام اشتیاق

قائم چاندپوری




ہونا تھا زندگی ہی میں منہ شیخ کا سیاہ
اس عمر میں ہے ورنہ مزا کیا خضاب کا

قائم چاندپوری




ہر عضو ہے دل فریب تیرا
کہئے کسے کون سا ہے بہتر

قائم چاندپوری




ہر طرف ظرف وضو بھرتے ہیں زاہد ہوئی صبح
ساتھ اٹھ ہم بھی صراحی میں مئے ناب کریں

قائم چاندپوری




ہر دم آنے سے میں بھی ہوں نادم
کیا کروں پر رہا نہیں جاتا

قائم چاندپوری




ہم دوانوں کو بس ہے پوشش سے
دامن دشت و چادر مہتاب

قائم چاندپوری




ہاتھوں سے دل و دیدہ کے آیا ہوں نپٹ تنگ
آنکھوں کو روؤں یا میں کروں سرزنش دل

قائم چاندپوری