قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
قائم چاندپوری
نظر میں کعبہ کیا ٹھہرے کہ یاں دیر
رہا ہے مدتوں مسکن ہمارا
قائم چاندپوری
پاس اخلاص سخت ہے تکلیف
تاکجا خاطر وضیع و شریف
قائم چاندپوری
پہلے ہی اپنی کون تھی واں قدر و منزلت
پر شب کی منتوں نے ڈبو دی رہی سہی
قائم چاندپوری
پہلے ہی گدھا ملے جہاں شیخ
اس کعبہ کو ہے سلام اپنا
قائم چاندپوری
پروانے کی شب کی شام ہوں میں
یا روز کی شمع کی سحر ہوں
قائم چاندپوری
پوچھو ہو مجھ سے تم کہ پیے گا بھی تو شراب
ایسا کہاں کا شیخ ہوں یا پارسا ہوں میں
قائم چاندپوری
قائمؔ حیات و مرگ بز و گاؤ میں ہیں نفع
اس مردمی کے شور پہ کس کام کا ہوں میں
قائم چاندپوری
قائمؔ جو کہیں ہیں فارسی یار
اس سے تو یہ ریختہ ہے بہتر
قائم چاندپوری