ڈہا کھڑا ہے ہزاروں جگہ سے قصر وجود
بتاؤں کون سی اس کی میں استوار طرف
قائم چاندپوری
آ اے اثرؔ ملازم سرکار گریہ ہو
یاں جز گہر خزانے میں تنخواہ ہی نہیں
قائم چاندپوری
چاہیں ہیں یہ ہم بھی کہ رہے پاک محبت
پر جس میں یہ دوری ہو وہ کیا خاک محبت
قائم چاندپوری
بنا تھی عیش جہاں کی تمام غفلت پر
کھلی جو آنکھ تو گویا کہ احتلام ہوا
قائم چاندپوری
بانگ مسجد سے کب اس کو سر مانوسی ہے
جس کے کانوں میں بھرا نالۂ ناقوسی ہے
قائم چاندپوری
بڑ نہ کہہ بات کو تیں حضرت قائمؔ کی کہ وہ
مست اللہ ہیں کیا جانیے کیا کہتے ہیں
قائم چاندپوری
بعد خط آنے کے اس سے تھا وفا کا احتمال
لیک واں تک عمر نے اپنی وفاداری نہ کی
قائم چاندپوری
اے عشق مرے دوش پہ تو بوجھ رکھ اپنا
ہر سر متحمل نہیں اس بار گراں کا
قائم چاندپوری
اہل مسجد نے جو کافر مجھے سمجھا تو کیا
ساکن دیر تو جانے ہیں مسلماں مجھ کو
قائم چاندپوری