EN हिंदी
کون سا دن کہ مجھے اس سے ملاقات نہیں | شیح شیری
kaun sa din ki mujhe us se mulaqat nahin

غزل

کون سا دن کہ مجھے اس سے ملاقات نہیں

قائم چاندپوری

;

کون سا دن کہ مجھے اس سے ملاقات نہیں
لیک جی چاہے ہے جوں ملنے کو وہ بات نہیں

آنکھ لڑ جائے ہے یوں اب بھی تو اس کی محرم
لیک نظروں میں وہ آگے کی سی سمکھات نہیں

جس جھمکڑے سے کہ نت چشم مری ٹپکے ہے
ایسی جھڑیوں سے تو برسی کبھی برسات نہیں

رونق بادہ پرستی تھی ہمیں تک جب سے
ہم نے کی توبہ کہیں نام خرابات نہیں

شیخ کی داڑھی کی جو کہئے بڑائی سچ ہے
اس سوا اور پر اک پشم کرامات نہیں

آ جو ملتا ہے تو مل لے تو کہ فرصت ہے مفت
ایک چشمک میں مری جان یہ پھر رات نہیں

رکھ تو سرگوشی کے حیلے کو تو منہ پر قائمؔ
بوسہ لینے کی اس انبوہ میں گو گھات نہیں