EN हिंदी
قائم چاندپوری شیاری | شیح شیری

قائم چاندپوری شیر

88 شیر

نہ جانے کون سی ساعت چمن سے بچھڑے تھے
کہ آنکھ بھر کے نہ پھر سوئے گلستاں دیکھا

قائم چاندپوری




مجھ بے گنہ کے قتل کا آہنگ کب تلک
آ اب بنائے صلح رکھیں جنگ کب تلک

قائم چاندپوری




مری نظر میں ہے قائمؔ یہ کائنات تمام
نظر میں گو کوئی لاتا نہیں ہے یاں مجھ کو

قائم چاندپوری




مسجد سے گر تو شیخ نکالا ہمیں تو کیا
قائمؔ وہ مے فروش کی اپنے دکاں رہے

قائم چاندپوری




میں کن آنکھوں سے یہ دیکھوں کہ سایہ ساتھ ہو تیرے
مجھے چلنے دے آگے یا ٹک اس کو پیشتر لے جا

قائم چاندپوری




میں کہا عہد کیا کیا تھا رات
ہنس کے کہنے لگا کہ یاد نہیں

قائم چاندپوری




میں ہوں کہ میرے دکھ پہ کوئی چشم تر نہ ہو
مر بھی اگر رہوں تو کسی کو خبر نہ ہوں

قائم چاندپوری




میں دوانا ہوں صدا کا مجھے مت قید کرو
جی نکل جائے گا زنجیر کی جھنکار کے ساتھ

قائم چاندپوری




مے پی جو چاہے آتش دوزخ سے تو نجات
جلتا نہیں وہ عضو جو تر ہو شراب میں

قائم چاندپوری