خط کے آتے ہی وہ مکھڑے کی صفائی کیا ہوئی
وہ منش کیدھر گئے وہ میرزائی کیا ہوئی
ہم نہ کہتے تھے کہ پیارے جان اہل دل کی قدر
اب وہ دل کیدھر گئے وہ دل ربائی کیا ہوئی
زور کرتا ہے اک عالم نا توانوں پر ترے
اے سپہر دوں تری زور آزمائی کیا ہوئی
شیخ جی آیا نہ مسجد میں وہ کافر ورنہ ہم
پوچھتے تم سے کہ اب وہ پارسائی کیا ہوئی
روئیے اس غم کدے میں آہ کس کس کو کہ یاں
دیکھتے نظروں کے اپنی اک خدائی کیا ہوئی
اے وفا بیگانہ تھا تو بھی تو ہم سے آشنا
وہ وفا کیدھر گئی وہ آشنائی کیا ہوئی
گو کسی حالت میں ہو قائمؔ میں سمجھوں ہوں تجھے
ہے تو تو وہ ہی پہ تیری کبریائی کیا ہوئی
غزل
خط کے آتے ہی وہ مکھڑے کی صفائی کیا ہوئی
قائم چاندپوری