درد دل کیوں کہ کہوں میں اس سے
ہر طرف لوگ گھرے بیٹھے ہیں
قائم چاندپوری
گریہ تو قائمؔ تھما مژگاں ابھی ہوں گے نہ خشک
دیر تک ٹپکیں گے باراں کے شجر بھیگے ہوئے
قائم چاندپوری
ڈہا کھڑا ہے ہزاروں جگہ سے قصر وجود
بتاؤں کون سی اس کی میں استوار طرف
قائم چاندپوری
چاہئے آدمی ہو بار تعلق سے بری
کیونکہ بیگانوں کے یاں بوجھ کو خر ڈھوتے ہیں
قائم چاندپوری
چاہیں ہیں یہ ہم بھی کہ رہے پاک محبت
پر جس میں یہ دوری ہو وہ کیا خاک محبت
قائم چاندپوری
بنا تھی عیش جہاں کی تمام غفلت پر
کھلی جو آنکھ تو گویا کہ احتلام ہوا
قائم چاندپوری
بانگ مسجد سے کب اس کو سر مانوسی ہے
جس کے کانوں میں بھرا نالۂ ناقوسی ہے
قائم چاندپوری
بڑ نہ کہہ بات کو تیں حضرت قائمؔ کی کہ وہ
مست اللہ ہیں کیا جانیے کیا کہتے ہیں
قائم چاندپوری
بعد خط آنے کے اس سے تھا وفا کا احتمال
لیک واں تک عمر نے اپنی وفاداری نہ کی
قائم چاندپوری