جوں عبرت کور جلوہ گر ہوں
البتہ کچھ ہوں میں پر کدھر ہوں
جوں شیشہ بھرا ہوں مے سے لیکن
مستی سے میں اپنی بے خبر ہوں
جو کہئے سو یاں سے ہے فروتر
کیا جانے میں کس مقام پر ہوں
اے صبر تنک تو رہ کہ تجھ سے
دو چار قدم میں پیشتر ہوں
چل دامن و آستیں تجھے کیا
لب خشک ہوں یا میں چشم تر ہوں
اے بخت سعید تیری دولت
اک یمن قدم سے ہوں جدھر ہوں
پروانے کی شب کی شام ہوں میں
یا روز کی شمع کی سحر ہوں
جی مانگے ہے خوش دلی کو قائمؔ
تو بیٹھ کے رو میں نوحہ گر ہوں
غزل
جوں عبرت کور جلوہ گر ہوں
قائم چاندپوری