واقف نہیں ہم کہ کیا ہے بہتر
جز یہ کہ تری رضا ہے بہتر
دیتا ہے وہی طبیب حاذق
بیمار کو جو دوا ہے بہتر
کس سے کہوں حال بد کہ وہ آپ
کچھ مجھ سے بھی جانتا ہے بہتر
آئینہ ہو یا تو آب لیکن
ہر شکل میں اک صفا ہے بہتر
چرچے سے اگر ہو صحبت غم
شادی سے ہزار جا ہے بہتر
لے نالہ خبر کہ زخم دل کا
پھر کہتے ہیں ہو چلا ہے بہتر
ہر عضو ہے دل فریب تیرا
کہئے کسے کون سا ہے بہتر
جاتی ہے نسیم اس گلی کو
اٹھ سکیے تو قافلہ ہے بہتر
قائمؔ جو کہیں ہیں فارسی یار
اس سے تو یہ ریختہ ہے بہتر
غزل
واقف نہیں ہم کہ کیا ہے بہتر
قائم چاندپوری