ہے بے اثر ایسی ہی جو اپنی کشش دل
جی لے ہی کے چھوڑے گی یہ اک دن خلش دل
تھا مو مجھے آمد میں کوئی اس کی کہ ناگاہ
لے جائے نہ گھر سے کہیں باہر تپش دل
زہراب و ہلاہل سے جو کچھ کام نہ نکلا
دے کر کے میں کی خون جگر پرورش دل
کس طرح کوئی گزرے تری رہ سے کہ پیارے
ہر گام پہ اس کوچے میں ہے چپقلش دل
کیا نقش کہ خاطر سے ہوئے مجھ کو مگر ایک
ہر نقش ترا آٹھ پہر منتقش دل
ہاتھوں سے دل و دیدہ کے آیا ہوں نپٹ تنگ
آنکھوں کو روؤں یا میں کروں سرزنش دل
دیجو نہ اسے اس بت بیباک کو قائمؔ
زنہار کہ نازک ہے نہایت تپش دل
غزل
ہے بے اثر ایسی ہی جو اپنی کشش دل
قائم چاندپوری