EN हिंदी
عبید اللہ علیم شیاری | شیح شیری

عبید اللہ علیم شیر

47 شیر

بولے نہیں وہ حرف جو ایمان میں نہ تھے
لکھی نہیں وہ بات جو اپنی نہیں تھی بات

عبید اللہ علیم




آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا

عبید اللہ علیم




دوستو جشن مناؤ کہ بہار آئی ہے
پھول گرتے ہیں ہر اک شاخ سے آنسو کی طرح

عبید اللہ علیم




دعا کرو کہ میں اس کے لیے دعا ہو جاؤں
وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے

عبید اللہ علیم




ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے

عبید اللہ علیم




ہائے وہ لوگ گئے چاند سے ملنے اور پھر
اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خواب اٹھا کر لے آئے

عبید اللہ علیم




ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی

عبید اللہ علیم




ہزار راہ چلے پھر وہ رہ گزر آئی
کہ اک سفر میں رہے اور ہر سفر سے گئے

عبید اللہ علیم




ہزار طرح کے صدمے اٹھانے والے لوگ
نہ جانے کیا ہوا اک آن میں بکھر سے گئے

عبید اللہ علیم