اگر ہوں کچے گھروندوں میں آدمی آباد
تو ایک ابر بھی سیلاب کے برابر ہے
عبید اللہ علیم
اہل دل کے درمیاں تھے میرؔ تم
اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ
عبید اللہ علیم
اے میرے خواب آ مری آنکھوں کو رنگ دے
اے میری روشنی تو مجھے راستا دکھا
عبید اللہ علیم
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
عبید اللہ علیم
بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں
عبید اللہ علیم
بولے نہیں وہ حرف جو ایمان میں نہ تھے
لکھی نہیں وہ بات جو اپنی نہیں تھی بات
عبید اللہ علیم
درود پڑھتے ہوئے اس کی دید کو نکلیں
تو صبح پھول بچھائے صبا ہمارے لیے
عبید اللہ علیم
دوستو جشن مناؤ کہ بہار آئی ہے
پھول گرتے ہیں ہر اک شاخ سے آنسو کی طرح
عبید اللہ علیم
دعا کرو کہ میں اس کے لیے دعا ہو جاؤں
وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے
عبید اللہ علیم