ایک میں بھی ہوں کلہ داروں کے بیچ
میرؔ صاحب کے پرستاروں کے بیچ
روشنی آدھی ادھر آدھی ادھر
اک دیا رکھا ہے دیواروں کے بیچ
میں اکیلی آنکھ تھا کیا دیکھتا
آئینہ خانہ تھے نظاروں کے بیچ
ہے یقیں مجھ کو کہ سیارے پہ ہوں
آدمی رہتے ہیں سیاروں کے بیچ
کھا گیا انساں کو آشوب معاش
آ گئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ
میں فقیر ابن فقیر ابن فقیر
اور اسکندر ہوں سرداروں کے بیچ
اپنی ویرانی کے گوہر رولتا
رقص میں ہوں اور بازاروں کے بیچ
کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے
گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ
اہل دل کے درمیاں تھے میرؔ تم
اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ
آنکھ والے کو نظر آئے علیمؔ
اک محمد مصطفی ساروں کے بیچ
غزل
ایک میں بھی ہوں کلہ داروں کے بیچ
عبید اللہ علیم