کچھ تو بتاؤ شاعر بیدار کیا ہوا
کس کی تلاش ہے تمہیں اور کون کھو گیا
آنکھوں میں روشنی بھی ہے ویرانیاں بھی ہیں
اک چاند ساتھ ساتھ ہے اک چاند گہہ گیا
تم ہم سفر ہوئے تو ہوئی زندگی عزیز
مجھ میں تو زندگی کا کوئی حوصلہ نہ تھا
تم ہی کہو کہ ہو بھی سکے گا مرا علاج
اگلی محبتوں کے مرے زخم آشنا
جھانکا ہے میں نے خلوت جاں میں نگار جاں
کوئی نہیں ہے کوئی نہیں ہے ترے سوا
وہ اور تھا کوئی جسے دیکھا ہے بزم میں
گر مجھ کو ڈھونڈنا ہے مری خلوتوں میں آ
اے میرے خواب آ مری آنکھوں کو رنگ دے
اے میری روشنی تو مجھے راستا دکھا
اب آ بھی جا کہ صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جاؤں
اے میرے آفتاب بہت تیز ہے ہوا
یارب عطا ہو زخم کوئی شعر آفریں
اک عمر ہو گئی کہ مرا دل نہیں دکھا
وہ دور آ گیا ہے کہ اب صاحبان درد
جو خواب دیکھتے ہیں وہی خواب نارسا
دامن بنے تو رنگ ہوا دسترس سے دور
موج ہوا ہوئے تو ہے خوشبو گریز پا
لکھیں بھی کیا کہ اب کوئی احوال دل نہیں
چیخیں بھی کیا کہ اب کوئی سنتا نہیں صدا
آنکھوں میں کچھ نہیں ہے بجز خاک رہ گزر
سینے میں کچھ نہیں ہے بجز نالہ و نوا
پہچان لو ہمیں کہ تمہاری صدا ہیں ہم
سن لو کہ پھر نہ آئیں گے ہم سے غزل سرا
غزل
کچھ تو بتاؤ شاعر بیدار کیا ہوا
عبید اللہ علیم