EN हिंदी
عبید اللہ علیم شیاری | شیح شیری

عبید اللہ علیم شیر

47 شیر

ہائے وہ لوگ گئے چاند سے ملنے اور پھر
اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خواب اٹھا کر لے آئے

عبید اللہ علیم




ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی

عبید اللہ علیم




ہزار راہ چلے پھر وہ رہ گزر آئی
کہ اک سفر میں رہے اور ہر سفر سے گئے

عبید اللہ علیم




ہزار طرح کے صدمے اٹھانے والے لوگ
نہ جانے کیا ہوا اک آن میں بکھر سے گئے

عبید اللہ علیم




انسان ہو کسی بھی صدی کا کہیں کا ہو
یہ جب اٹھا ضمیر کی آواز سے اٹھا

عبید اللہ علیم




جب ملا حسن بھی ہرجائی تو اس بزم سے ہم
عشق آوارہ کو بیتاب اٹھا کر لے آئے

عبید اللہ علیم




جوانی کیا ہوئی اک رات کی کہانی ہوئی
بدن پرانا ہوا روح بھی پرانی ہوئی

عبید اللہ علیم




جس کو ملنا نہیں پھر اس سے محبت کیسی
سوچتا جاؤں مگر دل میں بسائے جاؤں

عبید اللہ علیم




جو آ رہی ہے صدا غور سے سنو اس کو
کہ اس صدا میں خدا بولتا سا لگتا ہے

عبید اللہ علیم