تم اپنے رنگ نہاؤ میں اپنی موج اڑوں
وہ بات بھول بھی جاؤ جو آنی جانی ہوئی
عبید اللہ علیم
تم ہم سفر ہوئے تو ہوئی زندگی عزیز
مجھ میں تو زندگی کا کوئی حوصلہ نہ تھا
عبید اللہ علیم
تو بوئے گل ہے اور پریشاں ہوا ہوں میں
دونوں میں ایک رشتۂ آوارگی تو ہے
عبید اللہ علیم
یہ کیسی بچھڑنے کی سزا ہے
آئینے میں چہرہ رکھ گیا ہے
عبید اللہ علیم
زمیں کے لوگ تو کیا دو دلوں کی چاہت میں
خدا بھی ہو تو اسے درمیان لاؤ مت
عبید اللہ علیم
زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لیے
تو آسمان سے اترا خدا ہمارے لیے
عبید اللہ علیم
ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے
عبید اللہ علیم
آؤ تم ہی کرو مسیحائی
اب بہلتی نہیں ہے تنہائی
عبید اللہ علیم
اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمہاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے
عبید اللہ علیم