نیند آنکھوں سے اڑی پھول سے خوشبو کی طرح
جی بہل جائے گا شب سے ترے گیسو کی طرح
دوستو جشن مناؤ کہ بہار آئی ہے
پھول گرتے ہیں ہر اک شاخ سے آنسو کی طرح
میری آشفتگیٔ شوق میں اک حسن بھی ہے
تیرے عارض پہ مچلتے ہوئے گیسو کی طرح
اب ترے ہجر میں لذت نہ ترے وصل میں لطف
ان دنوں زیست ہے ٹھہرے ہوئے آنسو کی طرح
زندگی کی یہی قیمت ہے کہ ارزاں ہو جاؤ
نغمۂ درد لیے موجۂ خوشببو کی طرح
کس کو معلوم نہیں کون تھا وہ شخص علیمؔ
جس کی خاطر رہے آوارہ ہم آہو کی طرح
غزل
نیند آنکھوں سے اڑی پھول سے خوشبو کی طرح
عبید اللہ علیم