جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
نظیر اکبرآبادی
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
نظیر اکبرآبادی
جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو
from their beloved separated none should be
such a fate should not befall even my enemy
نظیر اکبرآبادی
کہیں بیٹھنے دے دل اب مجھے جو حواس ٹک میں بجا کروں
نہیں تاب مجھ میں کہ جب تلک تو پھرے تو میں بھی پھرا کروں
نظیر اکبرآبادی
کل بوسۂ پا ہم نے لیا تھا سو نہ آیا
شاید کہ وہ بوسہ ہی ہوا آبلۂ پا
نظیر اکبرآبادی
کل نظیرؔ اس نے جو پوچھا بزبان پنجاب
نیہ وچ مینڈی اے کی حال تسادا وے میاں
نظیر اکبرآبادی
کل شب وصل میں کیا جلد بجی تھیں گھڑیاں
آج کیا مر گئے گھڑیال بجانے والے
نظیر اکبرآبادی
کمال عشق بھی خالی نہیں تمنا سے
جو ہے اک آہ تو اس کو بھی ہے اثر کی طلب
نظیر اکبرآبادی
خفا دیکھا ہے اس کو خواب میں دل سخت مضطر ہے
کھلا دے دیکھیے کیا کیا گل تعبیر خواب اپنا
نظیر اکبرآبادی