EN हिंदी
نظیر اکبرآبادی شیاری | شیح شیری

نظیر اکبرآبادی شیر

104 شیر

نہ گل اپنا نہ خار اپنا نہ ظالم باغباں اپنا
بنایا آہ کس گلشن میں ہم نے آشیاں اپنا

نظیر اکبرآبادی




نہ اتنا ظلم کر اے چاندنی بہر خدا چھپ جا
تجھے دیکھے سے یاد آتا ہے مجھ کو ماہتاب اپنا

نظیر اکبرآبادی




نظیرؔ اب اس ندامت سے کہوں کیا
فآہا ثم آہا ثم آہا

نظیر اکبرآبادی




نظیرؔ تیری اشارتوں سے یہ باتیں غیروں کی سن رہا ہے
وگرنہ کس میں تھی تاب و طاقت جو اس سے آ کر کلام کرتا

نظیر اکبرآبادی




پکارا قاصد اشک آج فوج غم کے ہاتھوں سے
ہوا تاراج پہلے شہر جاں دل کا نگر پیچھے

نظیر اکبرآبادی




قسمت میں گر ہماری یہ مے ہے تو ساقیا
بے اختیار آپ سے شیشہ کرے گا جست

نظیر اکبرآبادی




رنج دل یوں گیا رخ اس کا دیکھ
جیسے اٹھ جائے آئینے سے زنگ

نظیر اکبرآبادی




سب کتابوں کے کھل گئے معنی
جب سے دیکھی نظیرؔ دل کی کتاب

نظیر اکبرآبادی




سرچشمۂ بقا سے ہرگز نہ آب لاؤ
حضرت خضر کہیں سے جا کر شراب لاؤ

نظیر اکبرآبادی