توڑے ہیں بہت شیشۂ دل جس نے نظیرؔ آہ
پھر چرخ وہی گنبد مینائی ہے کمبخت
نظیر اکبرآبادی
تمہارے ہجر میں آنکھیں ہماری مدت سے
نہیں یہ جانتیں دنیا میں خواب ہے کیا چیز
نظیر اکبرآبادی
تو ہے وہ گل اے جاں کہ ترے باغ میں ہے شوق
جبریل کو بلبل کی طرح نعرہ زنی کا
نظیر اکبرآبادی
تو جو کل آنے کو کہتا ہے نظیرؔ
تجھ کو معلوم ہے کل کیا ہوگا
نظیر اکبرآبادی
طوفاں اٹھا رہا ہے مرے دل میں سیل اشک
وہ دن خدا نہ لائے جو میں آب دیدہ ہوں
نظیر اکبرآبادی
اس بے وفا نے ہم کو اگر اپنے عشق میں
رسوا کیا خراب کیا پھر کسی کو کیا
نظیر اکبرآبادی
واماندگان راہ تو منزل پہ جا پڑے
اب تو بھی اے نظیرؔ یہاں سے قدم تراش
نظیر اکبرآبادی
وہ آپ سے روٹھا نہیں مننے کا نظیرؔ آہ
کیا دیکھے ہے چل پاؤں پڑ اور اس کو منا لا
نظیر اکبرآبادی
وہ مے کدے میں حلاوت ہے رند میکش کو
جو خانقاہ میں ہے پارسا کو عیش و طرب
نظیر اکبرآبادی