EN हिंदी
نظیر اکبرآبادی شیاری | شیح شیری

نظیر اکبرآبادی شیر

104 شیر

طوفاں اٹھا رہا ہے مرے دل میں سیل اشک
وہ دن خدا نہ لائے جو میں آب دیدہ ہوں

نظیر اکبرآبادی




تو جو کل آنے کو کہتا ہے نظیرؔ
تجھ کو معلوم ہے کل کیا ہوگا

نظیر اکبرآبادی




تو ہے وہ گل اے جاں کہ ترے باغ میں ہے شوق
جبریل کو بلبل کی طرح نعرہ زنی کا

نظیر اکبرآبادی




سرسبز رکھیو کشت کو اے چشم تو مری
تیری ہی آب سے ہے بس اب آبرو مری

نظیر اکبرآبادی




سنو میں خوں کو اپنے ساتھ لے آیا ہوں اور باقی
چلے آتے ہیں اٹھتے بیٹھتے لخت جگر پیچھے

نظیر اکبرآبادی




شہر دل آباد تھا جب تک وہ شہر آرا رہا
جب وہ شہر آرا گیا پھر شہر دل میں کیا رہا

نظیر اکبرآبادی




شب کو آ کر وہ پھر گیا ہیہات
کیا اسی رات ہم کو سونا تھا

نظیر اکبرآبادی




تر رکھیو سدا یارب تو اس مژۂ تر کو
ہم عطر لگاتے ہیں گرمی میں اسی خس کا

نظیر اکبرآبادی




سرچشمۂ بقا سے ہرگز نہ آب لاؤ
حضرت خضر کہیں سے جا کر شراب لاؤ

نظیر اکبرآبادی