طوفاں اٹھا رہا ہے مرے دل میں سیل اشک
وہ دن خدا نہ لائے جو میں آب دیدہ ہوں
نظیر اکبرآبادی
تو جو کل آنے کو کہتا ہے نظیرؔ
تجھ کو معلوم ہے کل کیا ہوگا
نظیر اکبرآبادی
تو ہے وہ گل اے جاں کہ ترے باغ میں ہے شوق
جبریل کو بلبل کی طرح نعرہ زنی کا
نظیر اکبرآبادی
سرسبز رکھیو کشت کو اے چشم تو مری
تیری ہی آب سے ہے بس اب آبرو مری
نظیر اکبرآبادی
سنو میں خوں کو اپنے ساتھ لے آیا ہوں اور باقی
چلے آتے ہیں اٹھتے بیٹھتے لخت جگر پیچھے
نظیر اکبرآبادی
شہر دل آباد تھا جب تک وہ شہر آرا رہا
جب وہ شہر آرا گیا پھر شہر دل میں کیا رہا
نظیر اکبرآبادی
شب کو آ کر وہ پھر گیا ہیہات
کیا اسی رات ہم کو سونا تھا
نظیر اکبرآبادی
تر رکھیو سدا یارب تو اس مژۂ تر کو
ہم عطر لگاتے ہیں گرمی میں اسی خس کا
نظیر اکبرآبادی
سرچشمۂ بقا سے ہرگز نہ آب لاؤ
حضرت خضر کہیں سے جا کر شراب لاؤ
نظیر اکبرآبادی