EN हिंदी
ہے اب تو وہ ہمیں اس سرو سیم بر کی طلب | شیح شیری
hai ab to wo hamein us sarw-e-sim-bar ki talab

غزل

ہے اب تو وہ ہمیں اس سرو سیم بر کی طلب

نظیر اکبرآبادی

;

ہے اب تو وہ ہمیں اس سرو سیم بر کی طلب
کہ طائران ہوا سے ہے بال و پر کی طلب

جو کہئے حسن کو خواہش نہیں یہ کیا امکاں
اسے بھی اہل نظر سے ہے اک نظر کی طلب

کمال عشق بھی خالی نہیں تمنا سے
جو ہے اک آہ تو اس کو بھی ہے اثر کی طلب

پری رخوں کو غرض کیا تھی زیب و زینت سے
نہ ہوتی گر انہیں اپنے نظارہ گر کی طلب

طلب سے کس کو رہائی ہے بحر ہستی میں
اگر صدف ہے تو اس کو بھی ہے گہر کی طلب

چمن میں بلبل و گل بھی ہیں اپنے مطلب کے
اسے ہے گل کی طلب اس کو مشت زر کی طلب

جہاں وہ باغ تمنا ہے جس کے بیچ نظیرؔ
جو اک شجر ہے تو اس کو بھی ہے ثمر کی طلب