سرسبز رکھیو کشت کو اے چشم تو مری
تیری ہی آب سے ہے بس اب آبرو مری
نظیر اکبرآبادی
شب کو آ کر وہ پھر گیا ہیہات
کیا اسی رات ہم کو سونا تھا
نظیر اکبرآبادی
شہر دل آباد تھا جب تک وہ شہر آرا رہا
جب وہ شہر آرا گیا پھر شہر دل میں کیا رہا
نظیر اکبرآبادی
سنو میں خوں کو اپنے ساتھ لے آیا ہوں اور باقی
چلے آتے ہیں اٹھتے بیٹھتے لخت جگر پیچھے
نظیر اکبرآبادی
تر رکھیو سدا یارب تو اس مژۂ تر کو
ہم عطر لگاتے ہیں گرمی میں اسی خس کا
نظیر اکبرآبادی
تیشے کی کیا مجال تھی یہ جو تراشے بے ستوں
تھا وہ تمام دل کا زور جس نے پہاڑ ڈھا دیا
نظیر اکبرآبادی
تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی اے شوخ ترا چاہنے والا نکلا
نظیر اکبرآبادی
ٹھہرنا عشق کے آفات کے صدموں میں نظیرؔ
کام مشکل تھا پر اللہ نے آسان کیا
نظیر اکبرآبادی
تھے ہم تو خود پسند بہت لیکن عشق میں
اب ہے وہی پسند جو ہو یار کو پسند
نظیر اکبرآبادی