EN हिंदी
نظیر اکبرآبادی شیاری | شیح شیری

نظیر اکبرآبادی شیر

104 شیر

باغ میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم

نظیر اکبرآبادی




آرزو خوب ہے موقع سے اگر ہو ورنہ
اپنے مقصود کو کم پہنچے ہیں بسیار طلب

نظیر اکبرآبادی




اشکوں کے تسلسل نے چھپایا تن عریاں
یہ آب رواں کا ہے نیا پیرہن اپنا

نظیر اکبرآبادی




اکیلا اس کو نہ چھوڑا جو گھر سے نکلا وہ
ہر اک بہانے سے میں اس صنم کے ساتھ رہا

نظیر اکبرآبادی




عجب مشکل ہے کیا کہئے بغیر از جان دینے کے
کوئی نقشہ نظر آتا نہیں آسان ملنے کا

نظیر اکبرآبادی




اے چشم جو یہ اشک تو بھر لائی ہے کمبخت
اس میں تو سراسر مری رسوائی ہے کمبخت

نظیر اکبرآبادی




ابھی کہیں تو کسی کو نہ اعتبار آوے
کہ ہم کو راہ میں اک آشنا نے لوٹ لیا

نظیر اکبرآبادی




عبث محنت ہے کچھ حاصل نہیں پتھر تراشی سے
یہی مضمون تھا فرہاد کے تیشے کی کھٹ کھٹ کا

نظیر اکبرآبادی




اب تو ذرا سا گاؤں بھی بیٹی نہ دے اسے
لگتا تھا ورنہ چین کا داماد آگرہ

نظیر اکبرآبادی