باغ میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم
نظیر اکبرآبادی
آرزو خوب ہے موقع سے اگر ہو ورنہ
اپنے مقصود کو کم پہنچے ہیں بسیار طلب
نظیر اکبرآبادی
اشکوں کے تسلسل نے چھپایا تن عریاں
یہ آب رواں کا ہے نیا پیرہن اپنا
نظیر اکبرآبادی
اکیلا اس کو نہ چھوڑا جو گھر سے نکلا وہ
ہر اک بہانے سے میں اس صنم کے ساتھ رہا
نظیر اکبرآبادی
عجب مشکل ہے کیا کہئے بغیر از جان دینے کے
کوئی نقشہ نظر آتا نہیں آسان ملنے کا
نظیر اکبرآبادی
اے چشم جو یہ اشک تو بھر لائی ہے کمبخت
اس میں تو سراسر مری رسوائی ہے کمبخت
نظیر اکبرآبادی
ابھی کہیں تو کسی کو نہ اعتبار آوے
کہ ہم کو راہ میں اک آشنا نے لوٹ لیا
نظیر اکبرآبادی
عبث محنت ہے کچھ حاصل نہیں پتھر تراشی سے
یہی مضمون تھا فرہاد کے تیشے کی کھٹ کھٹ کا
نظیر اکبرآبادی
اب تو ذرا سا گاؤں بھی بیٹی نہ دے اسے
لگتا تھا ورنہ چین کا داماد آگرہ
نظیر اکبرآبادی