خدا کے واسطے گل کو نہ میرے ہاتھ سے لو
مجھے بو آتی ہے اس میں کسی بدن کی سی
نظیر اکبرآبادی
کس کو کہئے نیک اور ٹھہرائیے کس کو برا
غور سے دیکھا تو سب اپنے ہی بھائی بند ہیں
نظیر اکبرآبادی
کتنا تنک صفا ہے کہ پائے نگاہ کا
ہلکا سا اک غبار ہے چہرے کے رنگ پر
نظیر اکبرآبادی
کوئی تو پگڑی بدلتا ہے اوروں سے لیکن
میاں نظیرؔ ہم اب تم سے تن بدلتے ہیں
نظیر اکبرآبادی
کچھ ہم کو امتیاز نہیں صاف و درد کا
اے ساقیان بزم بیارید ہرچہ ہست
نظیر اکبرآبادی
کوچے میں اس کے بیٹھنا حسن کو اس کے دیکھنا
ہم تو اسی کو سمجھے ہیں باغ بھی اور بہار بھی
نظیر اکبرآبادی
کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر
کیا ترے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم
نظیر اکبرآبادی
لکھ لکھ کے نظیرؔ اس غزل تازہ کو خوباں
رکھ لیں گے کتابوں میں یہ رنگ پر طائر
نظیر اکبرآبادی
مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم
there is the wine, the glass, the flask, but no one to pour
I feel like burning down the tavern on this very score
نظیر اکبرآبادی