EN हिंदी
نظیر اکبرآبادی شیاری | شیح شیری

نظیر اکبرآبادی شیر

104 شیر

خدا کے واسطے گل کو نہ میرے ہاتھ سے لو
مجھے بو آتی ہے اس میں کسی بدن کی سی

نظیر اکبرآبادی




کس کو کہئے نیک اور ٹھہرائیے کس کو برا
غور سے دیکھا تو سب اپنے ہی بھائی بند ہیں

نظیر اکبرآبادی




کتنا تنک صفا ہے کہ پائے نگاہ کا
ہلکا سا اک غبار ہے چہرے کے رنگ پر

نظیر اکبرآبادی




کوئی تو پگڑی بدلتا ہے اوروں سے لیکن
میاں نظیرؔ ہم اب تم سے تن بدلتے ہیں

نظیر اکبرآبادی




کچھ ہم کو امتیاز نہیں صاف و درد کا
اے ساقیان بزم بیارید ہرچہ ہست

نظیر اکبرآبادی




کوچے میں اس کے بیٹھنا حسن کو اس کے دیکھنا
ہم تو اسی کو سمجھے ہیں باغ بھی اور بہار بھی

نظیر اکبرآبادی




کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر
کیا ترے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم

نظیر اکبرآبادی




لکھ لکھ کے نظیرؔ اس غزل تازہ کو خوباں
رکھ لیں گے کتابوں میں یہ رنگ پر طائر

نظیر اکبرآبادی




مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم

there is the wine, the glass, the flask, but no one to pour
I feel like burning down the tavern on this very score

نظیر اکبرآبادی