EN हिंदी
نظیر اکبرآبادی شیاری | شیح شیری

نظیر اکبرآبادی شیر

104 شیر

تو ہے وہ گل اے جاں کہ ترے باغ میں ہے شوق
جبریل کو بلبل کی طرح نعرہ زنی کا

نظیر اکبرآبادی




تو جو کل آنے کو کہتا ہے نظیرؔ
تجھ کو معلوم ہے کل کیا ہوگا

نظیر اکبرآبادی




طوفاں اٹھا رہا ہے مرے دل میں سیل اشک
وہ دن خدا نہ لائے جو میں آب دیدہ ہوں

نظیر اکبرآبادی




اس بے وفا نے ہم کو اگر اپنے عشق میں
رسوا کیا خراب کیا پھر کسی کو کیا

نظیر اکبرآبادی




واماندگان راہ تو منزل پہ جا پڑے
اب تو بھی اے نظیرؔ یہاں سے قدم تراش

نظیر اکبرآبادی




وہ آپ سے روٹھا نہیں مننے کا نظیرؔ آہ
کیا دیکھے ہے چل پاؤں پڑ اور اس کو منا لا

نظیر اکبرآبادی




یوں تو ہم کچھ نہ تھے پر مثل انار و مہتاب
جب ہمیں آگ لگائی تو تماشا نکلا

نظیر اکبرآبادی




زمانے کے ہاتھوں سے چارہ نہیں ہے
زمانہ ہمارا تمہارا نہیں ہے

نظیر اکبرآبادی




یوں تو ہم تھے یوں ہی کچھ مثل انار و مہتاب
جب ہمیں آگ دکھائے تو تماشا نکلا

نظیر اکبرآبادی